ایم کیو ایم کی قیادت نے شہباز شریف سے ملاقات کی جس میں شہبازشریف نے متحدہ سے تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دینے کی درخواست کی ہے۔ خواجہ سعد رفیق، شاہ محمد شاہ اور مفتاح اسماعیل بھی شریک تھے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے معاملے پر بات ہوئی۔
جبکہ ایم کیو ایم نے اپوزیشن کا ایجنڈا واضح ہونے تک مہلت مانگ لی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے ڈپٹی کنوینئر عامر خان اور سابق مئیر کراچی وسیم اختر شہباز شریف سے ملاقات کے لیے ماڈل ٹاؤن پہنچے جہاں شہباز شریف نے وفد کا استقبال کیا اور ملاقات کی۔ عمران خان کے کراچی کے لئے 1100 ارب کے پیکیج کا کوئی پتا نہیں، انہیں صرف اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی فکر ہے، ہمیں خوف آتا ہے کہ ہم سب مل کر اس ملک کو کیسے ٹھیک کریں گے؟۔ اس دوران (ن) لیگ کی جانب سے احسن اقبال، ملک احمد خان، (ن) لیگ نے متحدہ سے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی درخواست کی تاہم ایم کیو ایم نے کہا کہ اپوزیشن کا ایجنڈا واضح ہونے تک کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ معاملہ واضح ہوجائے تو بہتر فیصلہ کریں گے۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ ایم کیو ایم رہنماؤں سے ملکی معاملات پر بات چیت ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ہم تحریک عدم اعتماد میں حمایت کے لیے متحدہ سے ملے ہیں، ایم کیو ایم کو بتایا کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ایک آئینی طریقہ کار ہے، اس میں ایم کیو ایم ہمارا ساتھ دے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے پاس وقت زیادہ نہیں ہے انہیں فوری فیصلہ کرنا ہوگا۔ ہمیں پوری امید ہے کہ ایم کیو ایم وہی فیصلہ کرے گی جو ملک و قوم کے حق میں ہوگا۔ ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان نے کہا کہ شہباز شریف کی ابھی پی ڈی ایم سے بات چیت ہونی ہے، اپوزیشن کی جانب سے کوئی واضح چیز سامنے نہیں آئی، کچھ سوال قبل از وقت ہیں، پہلے اپوزیشن کوئی واضح چیز سامنے لے آئے اس پر جو بھی فیصلہ بہتر ہوگا وہ کریں گے۔ اگر جلد فیصلہ نہ کیا تو قوم ایم کیو ایم سے سوال کرے گی، ایم کیو ایم کو آج پہلے پاکستانی اور پھر حلیف بن کر سوچنا ہوگا۔
عامر خان نے کہا کہ شہباز شریف سے کی گئی گفتگو رابطہ کمیٹی کے سامنے رکھیں گے پھر جو بہتر فیصلہ ہوگا وہ کریں گے۔ وفد نے کہا کہ عمران خان کو حکومت نہیں کرنی آتی۔
United delegation meets Shahbaz Sharif, Chaudhry brothers |
مزید
برآں ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم نے وزیراعظم عمران خان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم وفد وزیراعظم کے خلاف پھٹ پڑا۔عمران خان صبح ایک تو رات کو دوسرا فیصلہ کرتے ہیں۔ کراچی ہمارا تھا‘ مینڈیٹ چھین کر دیگر قوتوں کو مسلط کیا گیا۔ اپوزیشن حکومت کو گھر بھیجنے پر سنجیدہ کوشش کرے تو ایم کیو ایم غور کر سکتی ہے۔ حکومت نے اب تک ہم سے کوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔ ملکی معیشت تباہ ہو گئی ۔ ایم کیو ایم وفد نے شہباز شریف کو دورہ کراچی کی دعوت دی۔ شہباز شریف نے دعوت قبول کر لی۔ دونوں جماعتوں کے درمیان رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ ملاقات میں وفاقی وزراء طارق بشیر چیمہ، مونس الٰہی، ایم این اے سالک حسین، شافع حسین، رانا خالد اور عابد گجر بھی شریک تھے۔ ملاقات میں ملکی سیاسی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے دیگر امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا اور خاص طور پر بلدیاتی انتخابات اور دیگر اہم معاملات پر باہمی مشاورت سے آگے بڑھنے پر اتفاق کیا گیا۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ق) کے صدر و سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین اور قائم مقام گورنر پنجاب چودھری پرویزالٰہی سے ایم کیو ایم کے وفد نے ڈپٹی کنوینر عامر خان، سابق میئر کراچی وسیم اختر اور صادق افتخار کی سربراہی میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ وفد نے چودھری شجاعت حسین کی خیریت بھی دریافت کی۔ ہم بھی حکومت کا حصہ ہیں جو بھی فیصلہ کریں گے تمام اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے بعد کریں گے۔ بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عامر خان نے کہا کہ ہم چودھری شجاعت حسین کی خیریت دریافت کرنے آئے تھے، وہ ملک کے سینئر اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے نظریات اور اپنے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔قائم مقام گورنر پنجاب چودھری پرویزالٰہی نے کہا کہ ہم حکومت کے اتحادی ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم عمران خان کے ساتھ ہیں، آصف زرداری کل چودھری شجاعت حسین کی خبر گیری کیلئے آئے تھے۔ اس لیے عوام کو مسائل سے نکالنے کیلئے حکومت کو مشورے بھی دیتے رہتے ہیں، بطور اتحادی عوامی مسائل کے حل کیلئے تجاویز دینا ہمارا فرض ہے۔
چودھری
پرویزالٰہی نے کہا کہ بلدیاتی نظام کی قانون سازی میں اپوزیشن کو شامل کرنا خوش آئند ہے، ہم اسے ویلکم کرتے ہیں۔ طارق بشیر چیمہ نے اپنے بارے میں پوچھے گئے سوال پر کہا کہ عمران خان کے دورہ بہاولپور پر جب میں وہاں گیا ہی نہیں تو روکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، میں نے اسی دن اپنا کرونا ٹیسٹ کروایا تھا جس کی رپورٹ کا انتظار تھا اور میں نے وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری کو آگاہ کر دیا تھا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد کا سوال اپوزیشن جماعتوں کے سامنے رکھنا چاہئے، ہم تو حکومت میں ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے دوران عدم اعتماد پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ ابھی تک عدم اعتماد پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف کی ملاقات طے پا گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق ملاقات 11 فروری کو لاہور میں ہو گی۔ شہباز شریف ‘ آصف زرداری سے ملاقات سے متعلق آگاہ کریں گے۔ ملاقات میں ملکی سیاسی صورتحال پر مشاورت ہو گی۔ ایم کیو ایم کے عامر خان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے پرویز الہیٰ نے تحریک عدم اعتماد سے متعلق پوچھے گئے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ تحریک عدم اعتماد سے متعلق اپوزیشن والے ہی بتا سکتے ہیں، ابھی تو باورچی خانے میں سامان اکٹھا کیا جارہا ہے، ابھی پکنا شروع نہیں ہوا ہے، آپ کا ذہن ہے کہ کچا ہی کھا لیں۔ ان ہاؤس اور پنجاب میں تبدیلی پر بھی مشاورت ہو گی۔ لاہور سے فاخر ملک کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) میں رابطوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے جس میں صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف نے وفاقی وزیر چودھری مونس الٰہی سے فون پر گفتگو کی ہے۔ لاہور سے این این آئی کے مطابق ایم کیو ایم کے وفد سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے تحریک عدم اعتماد یا لانگ مارچ میں ساتھ دینے کے سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے ان کے دل سے کان لگا کر سنا ہے‘ زبان سے یہ خود کراچی جا کر بتائیں گے۔ تاہم اگلے سیٹ اپ کے بارے میں کوئی بھی بات قبل از وقت ہو گی۔ اندازہ کاروں کا کہنا ہے کہ رابطوں میں پیشرفت کی وجہ سابق صدر آصف زرداری کی چودھری پرویز الٰہی
United delegation meets Shahbaz Sharif, Chaudhry brothers |
سے ملاقات ہے جس کے بعد برف پگھلنا شروع ہو گئی ہے۔ اس ضمن میں مزید بتایا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ق) کے حلقے سیاسی کارڈز اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور انہیں وقت آنے پر شو کریں گے۔ ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ 72 گھنٹوں میں کوئی سیاسی ڈویلپمنٹ ہو سکتی ہے۔ اسلام آباد سے رانا فرحان اسلم، خبر نگار کے مطابق مسلم لیگ ن سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی (سی ای سی) کی جانب سے فیصلوں اور حکمت عملی وضع کرنے کے ختیارات تفویض ہونے کے بعد میاں شہباز شریف عملی طور پر متحرک ہوگئے ہیں۔ اس ضمن میں ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف جو ہمیشہ مقتدر قوتوں سے اچھے تعلقات کے حامی رہے ہیں‘ کی رواں ہفتہ کے دوران سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی سے ملاقات کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ذرائع کے مطابق حکومت مخالف تحریک، لانگ مارچ اور ایوان کے اندر تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے امور کو حتمی شکل دینے کیلئے مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے عملی جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کی وجہ اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے حکومتی اتحادیوں سے تیز رفتار رابطے ہیں۔ بلاول کے بعد ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کیساتھ رابطے، رواں ہفتے ملاقات بھی متوقع ہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی باہمی روابط میں تیزی اور اعتماد سازی کیلئے حکومت کی اتحادی جماعتوں کیساتھ ۔
رابطے کرکے انہیں ساتھ ملانے کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پارٹی کی سی ای سی اجلاس میں میاں شہباز شریف کو حکومت کیخلاف اہم ٹاسک سونپے گئے ہیں۔ جن کی انجام دہی کے دوران میاں شہبا زشریف سابق وزیر اعظم وپارٹی قائد میاں محمد نواز شریف اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)کے سربراہ امیر جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمن کیساتھ بھی مکمل مشاورت اور رابطے میں رہیں گے۔ فی الحال اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف پیپلزپارٹی سمیت ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق اور دیگر اتحادیوں کو ساتھ ملانے کیلئے عملی طور پر متحرک ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایوان کے اندر اکثریت کو یقینی بنانے کے بعد تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
مزید برآں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما انوار الحق کاکڑ نے کہاہے کہ حکومت سے اتحاد قائم ہے۔ دوسری جانب وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپوزیشن کی ملاقاتیں نشستند‘ گفتند‘ برخاستند ہیں۔ ہماری پارٹی ریاست کے کردار میں اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔ ہمارے پاس جتنے الیکٹیبلز تھے وہ ریاست بننے سے پہلے سے ہیں۔ہمیں اپنے اتحادیوں پر مکمل اعتماد ہے۔ ق لیگ‘ ن لیگ پر اور وہ ان پر اعتماد نہیں کرتے۔ ایم کیو ایم حکومت کی اتحادی اور کراچی میں پیپلز پارٹی کیخلاف احتجاج کرتی ہے۔ حکومت کو ملاقاتوں پر کوئی گھبراہٹ نہیں۔ ان کی اپنی صفوں میں اتحاد نہیں۔جہانگیر ترین کوئی گروپ نہیں۔ خیبر پی کے میں نقصان اس لئے ہوا کہ ہماری صفوں میں یکسوئی نہیں تھی۔ پنجاب میں اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھیں گے۔ تحریک انصاف میں صرف ایک گروپ عمران خان کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں احساس ہے مہنگائی‘ چیلنجز ہیں لیکن لوگ سمجھتے ہیں عمران خان ایماندار ہے اور اسے موقع ملنا چاہئے۔